Wednesday, January 26, 2011

افضل الذکر لا الہ الااﷲ



اﷲ کے دین کی حقیقت معلوم ہونا انسان کے لیے دنیا میں سب سے بڑی نعمت ہوسکتی ہے !

یہ ’دین‘ کیا ہے جس کی حقیقت معلوم ہونا دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے؟ وہ سب جذبات جو بندگی اور پرستش کے الفاظ سن کر آپ کے تخیل میں سما سکیں وہ سب احساسات جو کسی بڑی طاقتور ہستی کا شدید خوف آنے سے دل پر کبھی گزر جا ئیں ایسی وارفتگی جو کسی کی چاہت اور محبت میں سب کچھ بھلا دے۔ ایسی عاجزی اور حاجتمندی جو انسان کو اپنی سکت سے بے خبر کردے ۔ وہ کیفیت جو وفا اور رضا جوئی کی انتہا ہو او ر دل میں آپ سے آپ موجزن ہو ۔ ایسا کردار جس میں اطاعت اور فرما نبرداری مجسم ہو کر انسان کی شکل دھارلے۔۔۔ ’دین‘ حقیقت میں خشیت اور محبت کا ایک ایسا ہی بے اختیار جذبہ ہے ۔ بندگی کا ایک لطیف احساس ہے اور کردار کی ٹھوس حقیقت!

اتنی وسعت اور گہرائی تو ابھی لفظ ’دین‘ کی ہے! مگر جب یہ ’دین‘ اﷲ وحد ہ لاشریک کے لیے ہو جائے پھر تو اس کی وسعت کی کوئی انتہا نہیں رہتی۔ اس کیفیت کی تعبیر کے لیے تب انسان کے پاس تکبیر اور تسبیح کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا ! جنتا بڑا معبود ہوگا اتنا ہی بڑا اس کا تعارف ہوگا ! اب اﷲ سے بڑا کون ہے؟ زمین میں یاآسمانوں میں ؟ وہ تمام جہانوں کا رب ہے جو کچھ نظر آتا ہے جو بڑی سے بڑی چیز ذہن کو متاثراور مرغوب کرسکتی ہے ، اسکی ہے۔ جس ہولناک سے ہولناک مخلوق کا دل پر خوف اور لرزہ طاری ہوسکتا ہے اسکی ہے اور اس کے عذاب سے پناہ مانگتی ہے جو حسین سے حسین چیز کہیں پائی جاسکتی ہے اور لذت و لطف کی انتہا کہلاسکتی ہے اس کی قدرت کا کمال ہے پھر اس کی قدرت میں صر ف یہی نہیں اس سے بڑھ کر اور بہت کچھ ہے۔۔۔ اتنا کچھ کہ جو نظر آتا ہے عقل میں سماتا ہے وہ اس کے سامنے کچھ نہیں جو نظر سے اوجھل ہے اور عقل پر بھاری ہے۔ اس کی عظمت کے آگے تو بس سجدہ ہوسکتا ہے صرف ماتھا دھرا جاسکتا ہے تخیل اور عقل کو اس کا احاطہ کرنے کے لیے نہیں اس کو سجد ہ کرنے کے لیے وجود ملتا ہے! انسان اسکی کبریائی کو صرف اپنی عاجزی کا واسطہ دے سکتا ہے۔ ایک انسان ہی کیا زمین و آسمان کی ہر مخلوق اس کے لطف و رحمت کو اپنی ذات اور لاچار ی ہی کا واسطہ دیتی ہے۔

اتنے بڑے معبود کی پہچان بھی کتنی بڑی ہوگی! اس کی صفات کا احاطہ کر بھی کون سکتا ہے! اور اس کی عظمت کا اعتراف تو ہو بھی کیونکر سکتا ہے ! لوگ تو اپنے چھوٹے چھوٹے اور حقیر معبودوں کی تعظیم سے سیر نہیں ہوتے وطن کے گیت گاتے نہیں تھکتے ۔ قوم کی ترقی کا ورد نہیں چھوڑتے ۔ ملک کے استحکام پر جان دے دیتے ہیں ۔ آزادی پر تو قومیں اپنی نسلیں وار دیتی ہیں ۔ انسانی حقوق کی راہ میں قربانیاں ایک انسان کو امر کرجاتی ہیں۔ اور لوگ اس کے فنا ہوجانے کے بعد اس کے مجسمے تک پوجتے ہیں لوگ جمہوریت کی بحالی کے لیے’ شہید ‘ہوتے ہیں۔ کرکٹ میچ ہارنے یا جیتنے پر لوگوں کو دل کے دورے پڑ جاتے ہیں ۔ سیاسی اور فلمی ستاروں کی موت پر غشیاں پڑنے لگتی ہیں۔ قبیلے ، برادری اور ملک کی جنگ میں مائیں اپنے سپو ت پیش کردینا ہر دور میں باعث شرف سمجھ لیتی رہی ہیں ۔ قوم کے محسنوں کو زندہ و پائندہ باد کے نعروں سے صبح شام عقیدت کا خراج پیش کیا جاتاہے۔ وطن کے پرچم کو ’ایڑی چوٹی‘ کے پورے زرو سے سیلوٹ ہوتا ہے اور قومی تفاخر کے مواقع پراس کی مورتی[مورتی صرف جاندار کی حرام نہیں اﷲ کے سوا جس چیز کی تعظیم ہو اسکی مورتی حرام ہے مثلا صلیب جاندار نہیں ،کمیونسٹوں کا ہتھوڑا اور درانتی جاندار نہیں مگر شرک ہے] دل کے پاس سینے پر سجائی جاتی ہے۔ پتھر اور لکڑی جیسی حقیر چیزیں بھی اگر قومی یادگاروں میں استعمال ہو جائیں تو انکے تقدس کا یہ حال ہوتا ہے کہ ایسے پتھر او رلکڑی کے لیے توڑنے یا گرانے کے لفظ تک حرام ہوجاتے ہیں کسی بھی قوم کے ہیرو یا ملک کے بانی کی توہین ہو جائے یا اسکے بت کی بے حرمتی اس پرجلوس نکل سکتے ہیں اس کے لیے معمولی نازیبا الفاظ کے استعمال پر قیامت برپا ہوسکتی ہے ۔ اگرچہ رب العالمین کے ساتھ صبح و شام وہاں کیسا بھی کفر اور بغاوت ہوتی رہے۔ ایک ہاتھ پیر ہلانے سے عاجز بزرگ کی پس مرگ زیارت کے لیے ہزاروں میل کا سفر پیادہ پا کرکے عقیدت کا ’ادنی ‘ سا اظہار کیا جاتا ہے ایک مردے کی قبر کی توسیع کےلئے یہاں آدھا شہر اٹھادیا جاتا ہے ایک مٹی میں ملے معبود کی خوشی کی خاطر ہزاروں زندوں کا نقصان خوشی خوشی جھیلنا سعاد ت سمجھی جاتی ہے

0 comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...