Wednesday, January 26, 2011

لا اِلٰہ اِلا اﷲ کی دعوت




قُلْ هَـذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَاْ وَمَنِ اتَّبَعَنِي وَسُبْحَانَ اللّهِ وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ(یوسف: ١٠٨)

”کہو میرا راستہ یہی ہے: میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، پوری بصیرت کے ساتھ، اور میرے پیروکار بھی۔ اور اللہ پاک ہے۔ اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں“۔

عبداللہ بن عباس روایت کرتے ہیں: رسول اللہ نے جب معاذ بن جبل کو اپنا نمائندہ بنا کر یمن روانہ کیا تو ان سے فرمایا:

”تم ایک اہل کتاب قوم کے ہاں جا رہے ہوں۔ اس لئے سب سے پہلی بات جس کی تم ان کو دعوت دو یہ ہونی چاہئے کہ لا الہ الا اﷲ کی شہادت دی جائے“۔

ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:

”سو وہ سب سے پہلی بات جس کی تم اُن کو دعوت دو، یہ ہو کہ وہ اللہ کی توحید پر ائیں“۔

”پھر جب وہ تمہاری یہ بات تسلیم کرلیں تو ان کو خبر کرو کہ اللہ نے اُن پر دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کر رکھی ہیں۔ پھر اگر وہ تمہاری اس بات پر عمل پیرا ہوں تو ان کو خبر کرو کہ اللہ نے اُن پر مال ودولت کی پاکیزگی فرض کر رکھی ہے جو ان کے مالداروں سے لے کر اُن کے ناداروں کو لوٹا دی جائے گی۔ پھر جب وہ تمہاری اِس بات پر عمل پیرا ہوں تو زکوت وصول کرتے ہوئے ان کے قیمتی اور نفیس مال کو ہاتھ نہ لگانا۔ اور ہاں مظلوم کی بددُعا سے ڈرتے رہو، کہ مظلوم کی آہ اور خدا تعالیٰ کے مابین کوئی حجاب نہیں“۔ (بروایت صحیحین)

صحیحین ہی میں سہل بن سعد سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے غزوہ خیبر کے موقعہ پر فرمایا:

”کل میں یہ جھنڈا ایک ایسے شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول کو عزیز رکھتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس کو عزیز رکھتا ہے۔ اللہ اسی کے ہاتھ پر فتح دے گا“۔

تب لوگوں نے ساری رات یہ سوچ سوچ کر گزار دی کہ وہ کون خوش نصیب ہے جسے یہ جھنڈا ملے گا۔ صبح ہوتے ہی لوگ رسول اللہ کے پاس جمع ہو گئے۔ ہر شخص کی خواہش کہ جھنڈا اُسے ملے۔ تب آپ نے فرمایا۔ ”علی بن ابی طالب کہاں ہے؟“ عرض کی گئی: ”اُن کی آنکھ آئی ہوئی ہے“۔ تب حضرت علی کو بلا بھیجا گیا۔ علی آئے۔ آپ نے اپنا لعاب مبارک اُن کی آنکھوں پر لگایا اور ان کیلئے دعا فرمائی۔ یکدم تکلیف جاتی رہی جیسے کبھی تھی ہی نہیں۔ تب آپ نے اُن کو علم دیا اور فرمایا:

”آرام سے جائو۔ جب تم میدان میں پہنچ لو تو پہلے اُن کو اِسلام کی دعوت دو اور اُن کو سمجھائو کہ اللہ کا اُن پر کیا کیا حق ہے۔ بخدا تمہارے ہاتھ پر اللہ اگر ایک شخص کو بھی ہدایت دے دیتا ہے تو تمہارے لئے وہ بیش قیمت سرخ اُونٹوں (کی غنیمت ہاتھ لگنے) سے بہتر ہے۔

اب اِس سے جو مسائل ثابت ہوئے وہ یہ ہیں:

پہلا مسئلہ: اللہ کی طرف دعوت دینا ہر اس آدمی کیلئے راہ عمل ہے جو رسول اللہ کا پیروکار بنتا ہے۔

دوسرا مسئلہ: اخلاص کی اہمیت واضح ہوتی ہے یعنی دعوت واقعتاً اللہ کی طرف ہو۔ کیونکہ بہت سے لوگ جب حق کی دعوت دیتے ہیں تب بھی وہ ’اپنی‘ طرف بلا رہے ہوتے ہیں۔

تیسرا مسئلہ: بصیرت فرائض دین میں شامل ہے۔

چوتھا مسئلہ: توحید کی خوبصورتی یہ ہے کہ خدا پر حرف نہ آنے دیا جائے اور آدمی اس کو ہر عیب سے منزہ اور مبرا جانے۔

پانچواں مسئلہ: شرک کی گندگی یہ ہے کہ اس سے خدا کی ذات پر حرف آتا ہے۔

چھٹا مسئلہ: جو کہ سب مسائل میں اہم ترین ہے.... کہ مسلمان چاہے خود شرک نہ کرتا ہو، پھر بھی مشرکوں سے دور رہے، تاکہ اِن میں سے نہ ہو جائے۔

ساتواں مسئلہ: یہ کہ توحید سب سے پہلا فرض ہے۔

آٹھواں مسئلہ: یہ کہ دین کی ابتدا ہر دوسری چیز سے پہلے، حتی کہ نماز سے بھی پہلے، توحید سے کی جائے۔

نواں مسئلہ: یہ کہ اللہ کو ایک جاننے کا مطلب لا الہ الا اﷲ کی شہادت دینا ہے۔

دسواں مسئلہ: یہ کہ انسان اہل کتاب ہوتے ہوئے بھی لا الہ الا اﷲ کے مطلب سے بے خبر رہ سکتا ہے۔ یا اگر مطلب سے باخبر ہو بھی تو ہو سکتا ہے کہ اس کے تقاضوں پر نہ چلتا ہو۔

گیارہواں مسئلہ: اس بات کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ دین کی تعلیم میں تدریج ضروری ہے۔

بارہواں مسئلہ: یہ کہ دین کا کام اس طرح ہو کہ پہلے سب سے اہم کام پھر اس سے کم اہم اور پھر اس سے کم اہم۔

تیرہواں مسئلہ: زکوت کا مصرف واضح ہوتا ہے۔

چودھواں مسئلہ: یہ کہ عالم کو چاہئے کہ مخاطب کے ذہن سے شبہات کو ازخود دور کردے۔

پندرہواں مسئلہ: یہ کہ زکوت کی وصولی کے دوران کسی کے قیمتی اور نفیس مال پر ہاتھ نہ ڈالا جائے۔

سولہواں مسئلہ: آدمی مظلوم کی بددُعا لینے سے بچے۔

سترھواں مسئلہ: یہ کہ مظلوم کی آہ خدا تک پہنچ کر رہتی ہے۔

اٹھارہواں مسئلہ: توحید کے دلائل میں سے ایک دلیل رسول اللہ پر، جو کہ سید المرسلین اور سادات اولیاءہیں، تکلیفوں، مشقتوں اور بھوک پیاس ایسی آزمائشوں کا آنا ہے۔

انیسواں مسئلہ: آپ کا یہ فرمانا کہ: ”کل میں یہ جھنڈا ایک ایسے شخص کو دوں گا....“ رسول اللہ کی غیب کی پیشین گوئی پر مبنی ایک معجزہ ہے۔

بیسواں مسئلہ: آپ کا علی کی آنکھوں میں لعاب مبارک لگانا.... اور علی کی تکلیف جاتی رہنا.... آپ کا ایک معجزہ ہے۔

اکیسواں مسئلہ: یہیں سے علی کی فضیلت بھی ثابت ہوتی ہے۔

بائیسواں مسئلہ: صحابہ کرام کا یہ سوچ سوچ کر رات پار کر دینا کہ اللہ اور رسول سے محبت کی شہادت پانے والا کون خوش نصیب ہے، حتی کہ صحابہ کا، اسی مگن میں، فتح کی بشارت تک بھول جانا!

تیئسواں مسئلہ: تقدیر پر ایمان۔ چنانچہ ایک خوش نصیبی ایسے شخص کو ملتی ہے جو اس کیلئے بھاگ دوڑ نہیں کرتا اور اسے پانے سے وہ رہ جاتے ہیں جو اس کیلئے دوڑ دھوپ میں لگے ہیں!

چوبیسواں مسئلہ: آپ کا عالی ادب ہونا اور (حالت جنگ میں) حضرت علی کو فرمانا کہ: ”آرام سے جاؤ“۔

پچیسواں مسئلہ: اللہ کی طرف بلانا اور اِسلام کی طرف دعوت دینا قتال سے پہلے ہے۔

چھبیسواں مسئلہ: دعوت اِن لوگوں کے بھی حق میں مشروع ومطلوب ہے جن کو اس سے پہلے دعوت دی جا چکی ہو اور ان سے قتال تک شروع ہو چکا ہو۔

ستائیسواں مسئلہ: دعوت میں حکمت کا ضروری ہونا۔ آپ (علی کو) فرماتے ہیں: ”ان کو سمجھاؤ کہ اللہ کا اُن پر کیا کیا حق ہے“۔

اٹھائیسواں مسئلہ: اِسلام میں اللہ کا حق جاننا ہر دوسرے علم پر مقدم ہے۔

انیتسواں مسئلہ: جس آدمی کے ہاتھ پر ایک شخص بھی ہدایت پا جائے، اس کیلئے کیا کچھ ثواب ہے۔

تیسواں مسئلہ: یہ کہ فتوی دینے والا فتوی دیتے وقت اور معاملے کی سنگینی کے پیش نظر قسم اُٹھا سکتا ہے۔



(کتاب التوحید، باب چہارم

0 comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...